پاکستان میں عریانیت اور فحاشی


پاکستان میں نہائت سائٹفک طریقے سے غیر محسوس طریقے سے عریانی اور فحاشی کو جدت کے نام پہ فیشن قرار دیا جارہا ہے۔ اور میڈیا کے اس غیر ذمہدارانہ رویے اور ہر قسم کے خود ساختہ اخلاقیات سے آزاد لچر اشتہارات اور پروگراموں نے پاکستانی معاشرے پہ جو نقش چھوڑے ہیں۔ یہ پاکستان میں شرح خواندگی انتائی کم ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں کہ پاکستان میں علم سے محروم اکثریت ایسے بے ہودہ، غیر حقیقی اور فحش میڈیا اور اخبارات و رسائل کی وجہ سے آنکھیں بند کر اپنے آئیڈل اور زندگی کو آئیڈلائز کرنے کے لئیے اسی میڈیا کو پیمانہ اور معیار سمجھتی ہے۔
جس سے معاشرے میں انتہائی پیچیدہ قسم کی خرافات اور گھناونے جرائم میں اضافہ ہورہا۔ وہ نوجوان نسل جو ایسے بے ہودہ پروگرام کا ہدف ہوتی ہے عام طور پہ غیر شادہ شدہ ہوتی ہے اور زندگی کے اس دور سے گزر رہی ہوتی ہے جب جسم میں ہارمونز کا عمل عقل کو اندھا اور بہرا کردیتا ہے اور جسمانی پکار پہ ایسے دلخراش واقعے جنم لیتے ہیں جن پہ کھلی آنکھوں یقین نہیں آتا۔ ایسے میں اس مخصوص نوجوان نسل کے لئیے اسطرح کا مواد اور اشتہارات و پروگرام بارود کے ڈھیر کو دیا سلائی دکھانے کا کرتے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا وغیرہ کے اچھے بارے اثرات جاننے کے لئیے۔ حکومتی یا نجی سطح پہ سروے اور تحقیق وغیرہ کا سرے سے کسی ایسے تکلف کا اہتمام کرنے کا رواج ہی نہیں۔ اور ہر بات کو ہیر پھیر کر آزاد صحافت اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی مادر پدر آزادی سے بھرپور ایسے لغو پروگرامز کا جوا پیش کر دیا جاتا ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ یوروپ وغیرہ میں بھی ٹی وی وغیرہ پہ بھی انتہائی فحش اور ننگے پروگرام ہوتے ہیں مگر اس کے لئیے بھی ٹی وی چینلز نے اور حکومتوں نے قانون سازی کر کے ایسے پروگرامز کو اٹھارہ سال سے سے زائد عمر کے لئیے کا ٹائٹل لگاتے ہوئے رات کے ان حصوں کے لئیے مخصوص کر رکھا ہے جب عام لوگ سوچکے ہوتے ہیں۔
یوروپ و مغرب بھی اسقدر جنسی آزدی کے باوجود ضابطہ اخلاق پہ عمل کرتے ہیں جبکہ پاکستان یوروپ و مغرب نہیں اور وہی یوروپی کمپنیاں جو اپنے ممالک میں تو ہر قسم کے قوانین کی پابندی کرتی ہیں اور ہر قسم کے ضابطہ اخلاق پہ عمل کرتی ہیں۔ تو کیا وجہ وہی لوگ پاکستان میں پہنچ کر اسقدر آزاد ہوجاتے ہیں اور پاکستانی نقال اپنا پروڈکٹ یعنی ڈرامے اور بے ہودہ گانوں کی ویڈیوز اور اچھل کود میں “مصالحہ” ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور دن کے کسی بھی وقت پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے پرخچے اڑاتے ہوئے انھیں ریلیز کیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر گلی محلے میں کھلے ویڈیوز سنٹر، انٹرنیٹ کیفے۔ کیبلز ٹی وی پروگرامز کی فحاشی پوری کر رہی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ پھر اسے ساری فیملی مل کر دیکھتی ہے۔ اور دن بدن بچوں کی دیر سے شادیاں کرنے کی وجہ سے اور دگر وجوہات پہ غیر شادہ شدہ اور کئی ایک شادی شدہ بھی ایسے گھناؤنے جنسی جرموں، اور معسوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے مرکزی کردار بنتے ہیں۔ جن کی جملہ تفضیلات اخبارات میں سبھی تقریبا روانہ پڑھتے ہیں۔
قوم کے وسیع تر مفاد میں ایسی بے ہودگی اور مذموم کاروبار کو فورا لگام دیا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
قانون قدرت ہے کہ جس قوم کا اخلاق ختم تباہ ہوجائے وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

2 تبصرے::

Talksaqib said...
This comment has been removed by the author.
Talksaqib said...

اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور گناہوں اور خرافات سے بچنے کی توفیق دے۔ ہم معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔ یہی کامیابی کی راہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
http://www.colourislam.blogspot.com/

Post a Comment