ذات پات کا نظام

ہندؤستان کے مقامی لوگوں کے مزاج میں ابھی تک یہ بات شامل ہے۔ اور ہم آپ اسکا مظاہرہ پاکستان میں جا بجا دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کے آباء بوریاں سیتے تھے تو انہیں بورے والے  کا نام دے دیا  ۔ جسکا تعلق لاہور یا رنگون سے ہوا انہیں “لاہوریا” یا “رنگون والے” کہہ دیا ۔ خواہ اس وقت ان لوگوں نے ایسے نام رکھے جانے کی اپنی سی مزاحمت کی ۔ بوریاں سینے والے گزر گئے اب انکی نسلیں بھی ایسے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔
عربی میں سید کسی بھی باعزت فرد کو یا کسی کو عزت دینے کے لئیے کہا جاتا ہے۔ “سیدی” “سید” “یا سید” یاسیدی” اسی طرح ” الشیخ” بھی احتراما کہا جاتا ہے۔ جبکہ برصغیر میں انھیں کاسٹ یعنی ذات یا قومیتیں تصور کیا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے طلوع اسلام کے بعد ہندؤستان میں رائج دونوں قومیتوں کے جد امجد وقفے وقفے سے ہندؤستان وارد ہوتے رہے اور انکے آپس میں ایک دوسرے کو سید اور شیخ مخاطب کرنے سے مقامی لوگوں نے انھیں سید اور شیخ قومیت کے طور پہ جانا اور پکارنا شروع کر دیا۔

ہندؤستان میں طلوع اسلام سے صدیوں قبل سے ذات پات اور اچھوت چھات کا معاشرتی نظام چلا آرہا ہے۔ اونچی ذات کے ہندؤوں اور برہمنوں کی اقلیت کے تفاخر کے سامنے شودر اور ویش ذاتوں کی اکثریت کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور بدستور یہ رویہ بھارت میں موجود ہے۔ ہندوستان میں برہمن مذھبی اور روائتی طور پہ برتر قومیت ہے۔ اور برہمن نسلا برہمن ہو تو برہمن کہلوایا جائے گا ورنہ کوئی ہندؤ کتنی بھی تپسیا کر لے۔ کسقدر پوجا پاٹ کرتا رہے وہ کبھی برہمن نہیں بن سکتا۔ اسی طرح عرب سے آنے والے کچھ عربوں نے سید کہلوائے جانے کے بعد برہمنوں کی طرح اپنی قومیت کو ہر قسم کی خونی ملاوٹ سے پاک رکھتے ہوئے اپنے اپ کو مقدس قرار دیا۔ اور سید ہونے کی شرط نسلا رکھ دی۔ اور یہ بھول گئے کہ انکے آباء جہاں سے نقل مکانی  ہجرت کر کے آئے ہیں وہاں سید کو احتراما کہا اور پکارا جاتا ہے اور وہ کسی بھی نسل سے ہوسکتا ہے۔
ہندوستان پہ مسلمانوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے ہندؤستان آنے والے عرب تاجروں اور سپاہیوں میں سے کچھ نے سید کہلائے جانے کو تفاخر کے طور خاندانی اسٹیٹس بنا لیا اور دوسرے غیر سید مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندؤں سے اپنے آپ کو برترسمجھنے لگے ۔ مقامی حاکموں نے انہیں حویلیاں ، جائیدادیں مراعات اور جاگیر داریاں بخشیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ یہ لوگ مسلمان ہونے کے ناطے ہر قسم کی اعلٰی یا کمتر ذات پات کی سختی سے نفی کرتے اور اپنی ذات کو نمونہ بناتے تانکہ برہمن کے ہاتھوں ستائی ہوئیں اور ہندوستان میں بسنے والی شودر ویش قومیں اسلام میں داخل ہوتیں۔

ہندؤستان کے سیدوں یا سادات کے بارے ایک رائے یہ بھی ہے کہ شہید کربلا حسین رضہ اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان کے زندہ بچ جانے والے لٹے پٹے عزیز اور امام زین العابدین اور آل عباس کی اولادوں میں سے کچھ لوگ عراق، شام اور ایران سے ہوتے ہوئے صدیوں تک ہندؤستان آتے رہے۔ اور اسکے علاوہ وہ مبلغین بھی اسی شمار میں آتے ہیں جو ایران وغیرہ سے ہوتے ہوئے بالآخر ہندؤستان پہنچے۔ یہ سیدوں کی ہندؤستان میں آمد کی دوسری بڑی وجہ اور ذریعہ ہے۔ جبکہ ایران عراق اور شام سے آنےوالے سادات نے تبلیغ دین اور اسلام کی ترویج کو کو اپنا اشعار بنایا اور اس مقصد کے لئیے خانقاہیں ،مدرسے ، سماع کی محفلیں اور لنگر جاری کئیے۔ اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان سے مصاحفہ کیا تھا ۔ یعنی ہاتھ ملایا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ عام مسلمان جنہیں یہ ہاتھ چومنے والی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی وہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں کو اس عقیدت سے چوم لیا کرتے کہ ان ہاتھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔ اور یہ عقیدت اور لمس ہاتھ در ہاتھ نسل در نسل ہوتا آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں کسی نہ کسی صورت ہاتھ چومنے کی یہ عقیدت عام ہے۔ جیسے مراکو کے بادشاہ کے بارے عام طور پہ مشہور ہے کہ کہ اسکا شجرہ خاص سادات سے ہے اور اسکے ہاتھ نسل در نسل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصحافے تک جاتے ہیں اوریوں باپ داداسے ہوتا ہوا موجودہ بادشاہ تک پہنچتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مرواکو کے ذیادہ تر لوگ اپنے بادشاہ کے ہاتھ اس عقیدت کے تحت چومتے ہیں۔ جبکہ ہندؤستان میں سادات کے ہاتھ چومنے والے اور اکثر کے ہاتھ چومے جانے والے سادات یہ بنیادی عقیدت مدت ہوئی بھول چکے ہیں۔

بہرحال میری رائے میں محض کسی مخصوص نسل یا قبیلے سے تعلق ہونے کی وجہ کسی سید کا کسی غیر سید پہ فضلیت رکھنا خلاف اسلام ہے اگر خدا کے نزدیک کسی کو کسی دوسرے پہ فضلیت حاصل ہے تو یہ اسکے صالح اعمال اور دوسروں سے روا رکھی گئیں نیکیوں کی وجہ سے ہے ۔ ہاتھ چومنا یا پاؤں چومنا درست نہیں۔ اور کسی بھی وجہ سے ایک انسان سے اسطرح عقیدت رکھنا اور اسکا اظہار کرنا قطعی طور پہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح بے شک مختلف خانقاؤں پہ جاری لنگر گو کہ پاکستان کے غریبوں کو دوقت کی روٹی مہیاء کرتا ہے مگر یہ درست نہیں۔
پاکستان میں سبھی مسالک کو جینے اور اپنے عقیدے کے تحت زندگی گزارنے کی آزدی ہونی چاہئیے ۔ سب مسلمانوں کو ایک دوسرےرکے بارے صبرتحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئیے جو اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایک امتی ہونے کے ناطے یہ سب کا فرض بھی ہے۔

پاکستان میں مزید صوبے

اگر سیاسی مقاصد سے قطع نظر محض انتظامی طور پہ نئے صوبے ، ضلعے یا حلقے بنا دئیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہئیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کے ہر بیان کے پیچھے محض اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔
اسلئے پاکستان کا ہر ایرا غیرا اور نتھو خیرا تقسیم در تقسیم کی بات کرتا ہے کہ اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کا الگ مندر بنا کر اس پہ اپنا ذاتی اقتدار قائم کر سکے۔اور یہ ایک ایسا عمل ہے کہ موجودہ صورتحال پہ اسکے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ کیونکہ جس مک میں غریبی کا عفریت زندہ انسانوں کو نگل رہا ہو وہاں بھٹو کا مقدمہ ری اوپن کرکے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ذریعے سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے وفاق کو بلیک میل کرنا، امتناع قادیانیت، اور توہین رسالت جیسے قوانیین سے بغیر کسی وجہ کے چھیڑ چھاڑ کرنا۔ اعلٰی عدالتوں کے واضح فیصلوں پہ ٹال مٹول سے کام لینا۔ اور دیگر شرراتیں محض اصل مسائل لو جنہیں حل کرنے کے لئیے یہ حکمران اتنے بڑے بڑے مناصب پہ بیٹھے پوری تنخواہ لے رہے ہیں۔اور بندر بانٹ کے ذریعے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں دے رکھا ہے۔ ایسے میں پنجاب کی تقسیم محض اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔جسکے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لئیے نہائت خوفناک ہونگے۔
البتہ پہلے عوام کے جائز مسائل حل کر کے انھیں روزی روٹی تعلیم پانی بجلی گیش چاول آٹا دانہ “روٹی کپڑا مکان ” اور با عزت روزگار مہیاء کرنے کے بعد عوام سے سکون کے ساتھ ریفرنڈم کے ذریعیے رائے لی جاسکتی ہے۔ کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔آیا وہ سندھ ، پنجاب بلوچستان اور پختون خواہ کی مزید تقسیم چاہتے ہیں یا نہیں؟ اس سے پہلے ایسا کرنا اسی شاخ کو کاٹنا ہے جس پہ سب کا بسیرا ہے۔
جہاں تک اصول کی بات ہے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تو سندھ کے مسائل تو فوری نوعیت کے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لئیے سندھ زیریں اور سندھ بالائی دو صوبے بننا ضروری ہیں ۔اور کراچی کو ایک الگ صوبہ بنایا جانا بھی درست ہے تانکہ کراچی میں جاری دہشت گردی جس میں روزانہ درجنوں انسان بھتہ خوروں اور ایک مخصوص لسانی تنظیم کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے مخلوق خدا کو نجات دی جاسکے۔ اسی طرح خیبر پختون خواہ میں ہزاروال صوبہ بھی بننا چاہئیے تاکہ عوام کو انتظامی معاملات نزدیک ہی حل ہونے سے سہولت ہو۔ اور بلوچستان جو رقبے میں اسقدر بڑا ہے اس میں بھی دو یا تین صوبے ہونے چاہئیں۔ تاکہ لوگوں کو اس قدر دور اور دشوار کوئٹہ یاترا سے نجات ملے۔
سیاسی لحاظ سے اسکا فائدہ یہ بھی گا کہ صوبوں سے جڑی عصبیت بھی تقسیم ہو کر ختم ہوجائے گی۔
افغانستان میں ہر ضلع ایک صوبے کا درجہ رکھتا ہے۔ اسپین میں بھی ہر ضلع ایک صوبہ گنا اور سمجھا جاتا ہے۔جس سے انتظامی معاملات جلد اور آسانی سے حل ہوتے ہیں۔
مگر اس کے لئیے پاکستان کے بکاؤ مال سیستدانوں کی خود غرضی اور بغض معاویہ کو اصول نہیں مانا جانا چاہئیے بلکہ اسے صرف اور صرف مخلوق خدا کے فائدے کے حوالے سے محض انتظامی سہولت کے طور پہ کیا جانا ضروری ہے۔
اسلئیے سندھ کی تقسیم بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوگی جتنی پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی۔ مگر اس کے لئیے پاکستان کے عوام کی‌خواہش کو پیمانہ مانا جانا ضروری ہے۔

تعارفِ بلاگ

جیسا کہ آپ سب ساتھی جانتے ہیں کہ جاوید گوندل بھای جو بارسیلونا سپین سے تعلق رکھتے ہیں، کہ تبصرے بہت مفید اور جامع ہوتے ہیں۔ کوی بھی موضوع ہو جاوید بھای کے الفاظ نہ صرف علمی حثیت رکھتے ہیں بلکہ پڑھنے والوں کے لیے یقیناً نصائح سے کم نہیں۔ کافی عرصے سے بہت سے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ جاوید بھای کا کوی بلاگ ہو، لیکن اپنی مصروفیات کے باعث جاوید بھای نے بلاگ بنانے سے معذرت کر لی۔ کچھ ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ جاوید بھای کے نام سے ایک بلاگ بنا لیا جاے جہاں انکے تبصروں کو جمع کر دیا جاے۔ بلاگ بنانے سے پہلے جاوید بھای سے اجازت ضروری تھی چناچہ یہ کام ہمارے یاسر جاپانی بھای نے سرانجام دیا  تکنیکی کام وقار اعظم بھای نے جسکے لیے ہم سب انکے دلی طور پر مشکور ہیں۔ چناچہ اسی کاوش کے تحت یہ بلاگ آپکے سامنے ہے اور اسکے تمام جملہ حقوق جاوید گوندل بھای کے نام ہیں۔چونکہ جاوید بھای ایک مصروف شخصیت ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک بلاگ بنانے سے معذرت کی تھی اسی لیے بلاگ کی اجازت لیتے وقت یہ شرط رکھی گئی تھی کہ بلاگ پر کیے جانے والے تبصروں پر کسی بھی قسم کا جواب دینے کی ضرورت جاوید بھای کو نہ ہو گی۔ جاوید بھای کی ویب سائٹ کا نام بھی اجنبی ہے اور انکا ای میل ایڈرس بھی اجنبی ہوپ ہے اسی مناسبت سے بلاگ کا نام بھی اجنبی اُمید رکھا گیا ہے ۔اس بلاگ میں جاوید بھای کے تبصرے نہ صرف جمع کیے جائیں گے بلکہ انکو موضوع کی مناسبت سے عنوان بھی دیا جاے گا۔ ہو سکتا ہے ضرورت کے تحت تبصروں کو معمولی سا تبدیل بھی کیا جائے ، چناچہ جن تبصروں میں تبدیلیاں کی جائیں گی انکو چھاپنے سے پہلے جاوید بھای کو ضرور دکھلا دیا جاے گا۔ ہماری کوشش یہ ہو گی کہ جو تبصرے ہم یہاں پر شائع کریں انکا حوالہ (یعنی جہاں وہ پوسٹے گئے تھے) بھی ضرور دیں۔ اس کاوش میں آپ بھی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں، اگر جاوید بھای کا کوی تبصرہ کہیں بھی آپکو نظر آے اور اس سائٹ پر نہ ملے  آپ ہمیں اسکا لنک مندرجہ زیل ای میل ایڈریس پر بھیج سکتے ہیں۔
Ajnabi.hope786@gmail.com
 ۲۶ اپریل ۲۰۱۱