بینکنگ نظام

بینکنگ نظام
بنک کے لغوی معنی کچھ یوں بنتے ہیں وہ مڈل مین فرد ( آجکل ادراہ) جو مالی وسائل ئعنی رقم تلاش کرے۔ اکھٹا کرے۔ اور اسے سود پہ ادھار دے۔
موجودہ بنکنگ کا نظام یہودیوں کا نظام ہے۔ اور موجودہ‌ صورت میں یہ نظام اسقدر پرانا نہیں جسقدر مکی صاحب نے بابل و نینوا کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر جسے بنیاد بنا کر وہ بینکنگ قرار دے ہیں تو مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ پھر بنکنگ کا نظام انکے بیان کردہ تقریبا چار ہزار سالوں سے بھی قدیم ہے۔ بنکنگ کے وجود کا پتہ قدیم یونان میں بھی ملتا ہے اور دنیا کی دیگر تہزیبوں میں بھی اسکا پتہ چلتا ہے۔تاریخ دان بنکنگ کا ایک سرا حضرت ابراھیم علیۃ والسلام کے دور سے سے بھی آگے جا ملاتے ہیں۔ مگر تب بنکنگ یوں یا اس صورت میں نہیں تھی۔ جیسے‌آجکل ہے۔
ہمبرگ میں تجارتی میلوں کی وجہ سے رقم کی نقل و حرکت اور اسکی محفوظ ادائیگی کے لئیے “حامل رقعہ ھذا کو ادا کی جائے گی” نامی بنکنگ کا نظام تھا جس پہ یہودی اس بندوبست کے مالک تھے اور نہائت معمولی سا اپنا کمیشن لیتے تھے۔
مغرب یا چرچ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں پہ اتحنے والے اخراجات کے لئیے بنک کی طرز پہ رقم اکھٹی کرتا رہا ۔
گیارہ سو چھپن میں جینوا میں مغرب میں رقم کے لین دین پہ باقاعدہ لکھے پڑھے معائدے کئیے گئے ۔چودہ سو چھ میں پہلا بنک ” بنکو دی سن گیگوریو یوروپ میں جینوا اطالیہ میں وجود میں آیا۔ انگریزوں نے شاہ ہنری کے دور میں غالبا سترہ سو کچھ میں یہودیوں سے خطیر رقم لیکر انھیں سودی کاروبار کی اجازت دی۔
یہ تو مختصر ی تاریخ ہے بنکنگ اور جدید بنکنگ کا نظام نوع انسانی کو یہودیوں کی عطا ہے۔ بنک نامی لفظ اطالوی زبان میں اس میز نما کو کہتے ہیں جو جینوا، وینس، پیسا اور فلورینس میں یہودی لوگ سود پہ رقم ادھار کرنے کے لئیے استعمال کرتے تھے۔ یہ شا بلوط کی آبنوسی لکڑی کا مضبوط میز نما ہو تا تھا۔ جس کے ارد گرد دراز ہوتے تھے اور اس پہ سبز رنک کا نمدہ بچھا ہوتا جسکے سامنے کرسی رکھ کر یہودی سودی کاروبار کرتے ۔ اور اسے اطالوی زبان میں “بنکو” کہتے ہیں۔ جس سے موجودہ لفظ “بنک” وجود میں آیا ہے۔
یہ سو فیصد یہودیوں کا وضح کردہ نظام ہے۔ امریکہ سنٹرل ریزور مکلمل یہودی کنٹرول میں ہے۔ اس نظام کے داعی یہودی ہیں۔ اور یہ اسقدر واضح بات ہے کہ اس پہ کسی کو شک نہیں۔

0 تبصرے::

Post a Comment