افتاد طبع میں عقلی گھوڑے

محمد علی مکی نے کسی بات کو چھپایا نہیں۔ بلکہ جو سوچا وہ کہہ ڈالا۔ اور ایسے لوگ اپنی عقل کے آخری گھوڑے کو دوڑانے کے بعد باآخر وہیں پہ رکتے ہیں جہاں سے خدا کو کھوجنے کا آغاز کرتے ہیں مگر اس بار وہ خدا پہ اور جس مذھب سے انکا تعلق ہو اس پہ نہائت شدت سے ایمان لے آتے ہیں۔
یا پھر ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں بدستور عمر کا ایک حصہ اسی نفسیاتی ایپچ میں کاٹ کر آخری عمر میں سورۃ الفاتحہ مکمل سیکھنے کے کے لئیے کسی مولوی کامل عالم سے رجوع کرتے ہیں۔
ہر دو صورتوں میں جب اسطرح کوئی اپنا آپ ننگا کر دے یعنی وہ ہر اس حد سے گزر جائے جس سے پار ہونے کے تصور سے ہی ایک مسلمان کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں تو سوچ لیں کہ انہوں نے اپنے لئیے جو رستہ منتخب کیا یے وہ عقل کل کی بنیاد پہ ایسا رستہ چننے والا پہلا انسان نہیں۔
تاریخ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے عقل کل کو ایمان کا معیار سمجھا اور گمراہی کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ مگر ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ کیونکہ ایمان بغیر دلیل کے ہوتا ہے اور عقل سے دلیل ماننے والے اپنے زعم میں اپنے آپ غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔
قرآن کریم سے ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتا ہے۔ جس کا جتنا ظرف زیادہ ہے وہ اتنا ہی اس سے استفادہ کر لیتا ہے اور جو کم ظرف ہیں۔ وہ اس پہ ایں آں دیگر است سے ہچر مچر اور افلاظونیاں بگھارتے ہوئے خالی دامن رہ جاتے ہیں۔
قرآن کریم نہ تو تاریخی کتاب ہے اور نہ ہی اس میں سائنسی یا عقلی فامولے، استعملات اور سائنسی اسرار ر رموز کی کتاب ہے۔ یہ کلام اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کل عالم انسانیت کی فلاح کے لئیے نازل کیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ ہدایت کے زمرے میں ان قوموں کا بھی زکر کرتی ہے جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نابود ہوگئیں تانکہ ہم مسلمان عبرت پکڑیں اور ان جیسے اعمال اپنانے سے باز رہیں۔ اب اس بات کو کوئی تاریخی حوالے منتے ہوئے اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی عقل ناقس کا قصور ہے کیونکہ قرآن کریم اگر تاریخی کتاب ہوتی یعنی صرف علم تاریخ کی کتاب ہوتی اور خدا نخواستہ یہ کلام اللہ نہ ہوتا اور کسی انسان یا ادارے نے چھاپی ہوتی تو اسمیں علم تاریخ کے سبھی تقاضوں کے عیں مطابق تاریخ پہ بات چیت ہوتی اور اسمیں یہی معاملہ سائنس و حکمت کے ساتھ ہے۔ جس کے حوالے بھی مسلمانوں کو انکی بھلائی کے لئیے دیے گیئے ہیں ۔ اسلئیے قرآن کریم کو سائینس سے یا سائنس سے قرآن کریم سے سائنس کو ثابت کرنا میری رائے میں درست نہیں اور اس سے اجتناب برتنا چاہئیے اور جو لوگ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے یوں کرنے پہ مصر ہیں یا تو وہ گمراہ ہیں یا پھر وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص ایجنڈے پہ کام کر رہیں۔
محمد علی مکی ایمان اسلام کو پاتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا مگر کم از کم اس شخص نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی ذاتی عقل کو ہی ہر شئے کا معیار و پیمانہ سمجھتا ہے خواہ وہ اس سے گمراہی کے اندھیروں میں ہی کیوں نہ گم ہوجائے۔ اسلئیے ایسا شخص کسی کے ایمان اور دین کے لئیے خطرہ نہیں ہوتا بلکہ صاحب ایمان و اسلام اس کی حالت پہ ترس کھاتے ہیں اور راہ ہدایت کی دعا مانگتے ہیں۔ اور انشاء اللہ وہ ایمان اسلام پہ نہ صرف یقن لائے گا بلکہ کوئی عجب نہیں اسلام کا داعی ہو۔
مگر جو عبداللہ بن ابی بریگیڈ کے گندے انڈے جو ہر سو ہر جگہ منافقت کا گند پھیلائے ہوئے ہیں۔ جو منہ مومناں اور کرتوت کافراں ہیں۔ انکا محاسبہ پاکستان ، میڈیا، اور انٹرنیٹ وغیرہ پہ ہوتے رہنا ضروری ہے کہ یہ مکاری اور چاپلوسی سے اپنی منافقت کو جسے یہ اپنی روائتی بزدلی کی وجہ سے اعلانیہ کہنے سے ڈرتے ہیں اسے عام اور کم علم افراد کو قسم قسم کی ہمدردیوں کے جھانسے میں پھیلاتے ہیں۔
اسلئیے کافر سے ذیادہ منافق کو بدتر اور زیادہ قابل سزا قرار دیا گیا ہے کہ کافر جو سمجھتا سوچتا ہے وہ برملا کہتا ہے جبکہ منافقین درپردہ مسلمانوں سے غداری کرتے ہیں۔
جہاں تک حضرت نوح علیۃ والسلام کی عمر ساڑھے نو سال کے بارے یہ عقل کے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں تو ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہاتھی کی عمر دوسو سال اور کچھوؤن کی عمر تین سو سال آج کے دور میں بھی ہوتی ہے تو یہ نشانی ہے ۔ ثبوت ہے کہ جسطرح خیال کیا جاتا ہے کسی دور میں اس دنیا میں عظیم الجثہ ڈائنو سار پائے جاتے تھے اور انکی عمریں بہت لمبی تھیں تو کیا کسی کو شک ہے کہ حضرت نوح علیۃ والسلام کا دور اور طوفان اس سے بھی قدیم ہو گزرا ہو اور تبے انسانوں کی عمریں بھی طویل ہوتی ہوں۔ یا تب سورج کے گرد زمین کے چکر کا جسے ہم سال مانتے ہیں وہ دورانیہ مختصر وقت کا ہوتا ہو ۔ یا کیا عجب کہ سورج بتدریج گرم ہوا ہو اور سیارے خدا کی حکمت سے دور ہوتے چلے گئے ہوں اور انکا دورانے کا وقت بڑھ گیا ہو۔ اللہ تعالٰی کو ہر بات اور عمل کی قدرت ہے۔ جبکہ سائنس بار بار اپنے ہی تخلیق کردہ نظریات اور قوانین کو متواتر مسترد کرتی رہی ہے اور خدا جانے کیب تک کرتی رہے گی اور یوں عقل انسانی کو کسوٹی ماننے والے گمراہ ہوتے رہے گے۔
کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن کریم علم تاریخ کی کتاب نہیں یہ کلام اللہ ہے اسلئیے اللہ تعالٰی کی شان کو منظور نہیں کہ وہ ہر پیغمبر کے اداوار کو سالوں میں بیان کریں کہ کونسے سن یا دور میں کسی پیغمبر علیۃ والسلام کو بیجھا اللہ کی شان ہے کہ اس نے اپنے کلام کے ذریئے ھدایت کی مد میں محض ضمنا اس میں کچھ دور گنوا دئیے ہیں۔

0 تبصرے::

Post a Comment