کنویں کا مینڈک

یہ عبداللہ صاحب کی نذر ہے!
ایک چھوٹے اور تنگ سے گہرے کنوئیں میں ایک مینڈک رہتا تھا۔ جو وہیں پیدا ہواتھا۔ اتفاق سے سمندر کا ایک مینڈک کنوئیں کے قریب سے گزرتے ہوئے کنوئیں کی منڈیر سے ٹھوکر کھا کر کنوئیں میں جا گرا۔

کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا ۔۔تم کہاں سے‌آئے ہو۔؟
سمندر سے۔۔ سمندر میں پیدا ہونے والے میں مینڈک نے جواب دیا۔
سمندر کیسا ہوتا ہے ۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا۔
بہت بڑا!۔
کتنا بڑا۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے چھلانگ لگاتے ہوئے پوچھا اتنا بڑا۔؟
اس سے بھی بڑا۔ سمندر کے مینڈک جواب دیا۔

کنوئیں کے مینڈک نے ایک چھلانگ اور لگائی اور کنوئیں کے دوسرے کنارے تک پہنچ گیا۔ اور پھر سے پوچھا۔
اس کنوئیں سے بھی بڑا۔؟
اس سے ھی بہت بڑا۔ بے شمار بڑا۔ سمندر کے مینڈک نے جواب دیا۔
تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم کذاب ہو۔ اس کنوئیں سے بڑا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کنواں ہی سب سے بڑی شئے ہے ۔

اللہ کی شان ہے۔ کنوئیں کے مینڈک ٹرا ٹرا کر اہل سمندر سے کہتے ہیں۔ ہمارے کنوئیں سے آگے سب جھوٹ ہے۔

ٹہرے نا آخر کنوئیں کے مینڈک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیز۔:
مینڈک والے واقعہ کو ایسے لوگوں کے پس منظر میں پڑھا جائے۔ جنہیں شدید تعصب کے ہاتھوں بھتہ خوروں سے آگے کچھ نظر نہیں‌آتا۔ اور دوسروں کو اخلاقیات اور علم سیاست سکھانے کے درپے ہیں۔ جبکہ انکہ اپنی سیاست ہر قسم کی غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کی ہے۔
نوٹ۔: مندرجہ بالا تبصرہ ۔ میں نے ۔۔ افضل صاحب۔۔ میرا پاکستان۔۔ پہ کسی اور تناظر میں لکھا ہے۔ یہاں نقل کرتے ہوئے فیص کو عام کر رہا ہوں۔ امید کافی ہے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ عبداللہ صاحب کو بھی افاقہ ہوگا۔

امید کی جانی چاھئیے کہ وہ اسے کافی سمجھیں گے۔اور یار لوگوں کی ٹانگ ہر معاملے میں گھسیٹنے سے باز رہیں گے۔ ورنہ نسخے ہمارے پاس بے شمار موجود ہیں۔

0 تبصرے::

Post a Comment