حبیب جالب

پاکستان کے پُر آشوب دور کا ایک تاریخی کردار حبیب جالب ہوا ہے ۔ عجب مرد آزار تھا۔پاکستان کے غریبوں کے لئیے جدوجہد کی۔ ساری عمر بمعہ اہل و عیال انتہائی غریبی اور عسرت میں کاٹی۔ بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے نعرے پہ ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ جبر کے قہر کو برداشت کیا۔ تشدد، مار پیٹ، جیل۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بھٹو کو بچے کچھے پاکستان میں حکومت ملی۔ حبیب جالب کے گھر میں فاقوں کے ھاتھوں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ سخت جاڑے کے موسم میں۔گھر کے افراد بعض اوقات ایک ہی لحاف کے نیچے بھوکے سونے پہ مجبور ہوتے۔

ذوالفقار علی بھٹو نےاپنی وڈیرہ فطرت سے مجبور عوامی جمہوریت کا چولہ اتار پھینکاتھا ۔ اندر سے ایک آمر اور فسطائی بھٹو بڑامد ہوا۔ عین اس وقت جب بھٹو کی حکومت میں تانگہ بان بھی وزیر شزیر بنائے جارہے تھے۔ ممکن تھا کہ حبیب جالب بھی کوئی وزارت یا ادارت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔مگر حبیب جالب کو یہ منظور نہ ہوا بھٹو کی مخالفت کی اور سخت مخالفت کی۔ بھٹو نے ہر قسم کی مروت بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مخالفوں پہ داروگیر کے در وا کر دیے۔ جن میں حبیب جالب بھی شامل تھا ۔ غریب اور غیرتمند شاعر نے اپنے اہل خانہ کی عسرت کی پرواہ نہ کی اور جیل کی کال کھوٹڑیوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ بھٹو کا ظالمانہ تفاخر ایک غریب اور مجبور شاعر کو جھکا نہ سکا۔

پاکستان میں چھوٹی سی امیر اقلیت کے ھاتھوں پاکستان کا بہت بڑا اکثریتی طبقہ انتہائی غریب بلکہ بھوک و ننگ کا شکار طبقہ پرانے راجوں کی راجدھانیوں کی پرجا(رعایا) کی مانند سمجھ لیا گیا ہے۔ جس کا کام ہی علی الصبح اپنی بیگار کا آغاز شروع کرنے سے پہلے راجہ اور راجکمار کو ڈنڈوت کرنا۔پُن کے نام پہ انھیں پوجا پاٹ دان کر نا۔راجھدھانی کے مہاشوں کے ظلم کو اپنا فرض سمجھ کر سہنا۔ راجدھانی کے بنئیوں کے گُر ،گنتی کی مار کھا کر اپنی شب و روز کی محنت سے مٹھی بھر آٹا جس سے جسم کا سانس اور آس کا رشتہ بمشکل جڑا رہے۔مگر ۔ ۔ ۔ کب تک؟

حبیب جالب کی شاعری میں سے کچھ شعر بہت مشہور ہوئے۔ جن میں سے دو ذیل میں درج ہیں۔


کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جن کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے ، نہ دن اپنے بدلتے ہیں

 

0 تبصرے::

Post a Comment