پاکستان میں عریانیت اور فحاشی


پاکستان میں نہائت سائٹفک طریقے سے غیر محسوس طریقے سے عریانی اور فحاشی کو جدت کے نام پہ فیشن قرار دیا جارہا ہے۔ اور میڈیا کے اس غیر ذمہدارانہ رویے اور ہر قسم کے خود ساختہ اخلاقیات سے آزاد لچر اشتہارات اور پروگراموں نے پاکستانی معاشرے پہ جو نقش چھوڑے ہیں۔ یہ پاکستان میں شرح خواندگی انتائی کم ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں کہ پاکستان میں علم سے محروم اکثریت ایسے بے ہودہ، غیر حقیقی اور فحش میڈیا اور اخبارات و رسائل کی وجہ سے آنکھیں بند کر اپنے آئیڈل اور زندگی کو آئیڈلائز کرنے کے لئیے اسی میڈیا کو پیمانہ اور معیار سمجھتی ہے۔
جس سے معاشرے میں انتہائی پیچیدہ قسم کی خرافات اور گھناونے جرائم میں اضافہ ہورہا۔ وہ نوجوان نسل جو ایسے بے ہودہ پروگرام کا ہدف ہوتی ہے عام طور پہ غیر شادہ شدہ ہوتی ہے اور زندگی کے اس دور سے گزر رہی ہوتی ہے جب جسم میں ہارمونز کا عمل عقل کو اندھا اور بہرا کردیتا ہے اور جسمانی پکار پہ ایسے دلخراش واقعے جنم لیتے ہیں جن پہ کھلی آنکھوں یقین نہیں آتا۔ ایسے میں اس مخصوص نوجوان نسل کے لئیے اسطرح کا مواد اور اشتہارات و پروگرام بارود کے ڈھیر کو دیا سلائی دکھانے کا کرتے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا وغیرہ کے اچھے بارے اثرات جاننے کے لئیے۔ حکومتی یا نجی سطح پہ سروے اور تحقیق وغیرہ کا سرے سے کسی ایسے تکلف کا اہتمام کرنے کا رواج ہی نہیں۔ اور ہر بات کو ہیر پھیر کر آزاد صحافت اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی مادر پدر آزادی سے بھرپور ایسے لغو پروگرامز کا جوا پیش کر دیا جاتا ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ یوروپ وغیرہ میں بھی ٹی وی وغیرہ پہ بھی انتہائی فحش اور ننگے پروگرام ہوتے ہیں مگر اس کے لئیے بھی ٹی وی چینلز نے اور حکومتوں نے قانون سازی کر کے ایسے پروگرامز کو اٹھارہ سال سے سے زائد عمر کے لئیے کا ٹائٹل لگاتے ہوئے رات کے ان حصوں کے لئیے مخصوص کر رکھا ہے جب عام لوگ سوچکے ہوتے ہیں۔
یوروپ و مغرب بھی اسقدر جنسی آزدی کے باوجود ضابطہ اخلاق پہ عمل کرتے ہیں جبکہ پاکستان یوروپ و مغرب نہیں اور وہی یوروپی کمپنیاں جو اپنے ممالک میں تو ہر قسم کے قوانین کی پابندی کرتی ہیں اور ہر قسم کے ضابطہ اخلاق پہ عمل کرتی ہیں۔ تو کیا وجہ وہی لوگ پاکستان میں پہنچ کر اسقدر آزاد ہوجاتے ہیں اور پاکستانی نقال اپنا پروڈکٹ یعنی ڈرامے اور بے ہودہ گانوں کی ویڈیوز اور اچھل کود میں “مصالحہ” ڈالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور دن کے کسی بھی وقت پاکستانی معاشرے کی اخلاقی اقدار کے پرخچے اڑاتے ہوئے انھیں ریلیز کیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر گلی محلے میں کھلے ویڈیوز سنٹر، انٹرنیٹ کیفے۔ کیبلز ٹی وی پروگرامز کی فحاشی پوری کر رہی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ پھر اسے ساری فیملی مل کر دیکھتی ہے۔ اور دن بدن بچوں کی دیر سے شادیاں کرنے کی وجہ سے اور دگر وجوہات پہ غیر شادہ شدہ اور کئی ایک شادی شدہ بھی ایسے گھناؤنے جنسی جرموں، اور معسوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے مرکزی کردار بنتے ہیں۔ جن کی جملہ تفضیلات اخبارات میں سبھی تقریبا روانہ پڑھتے ہیں۔
قوم کے وسیع تر مفاد میں ایسی بے ہودگی اور مذموم کاروبار کو فورا لگام دیا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
قانون قدرت ہے کہ جس قوم کا اخلاق ختم تباہ ہوجائے وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

صدرِ پاکستان کا استقبال


 یہ تبصرہ اجمل چاچا کی پوسٹ صدرِ پاکستان کا استقبال پر کیا گیا ۔
یہ استقبال ، اعشائیے ، پروٹوکول، عزت مآب، ایکسی لینسی، بینڈ باجے ، توپوں کی سلامی۔ یہ سب فراڈ اسلئیے کیا جاتا ہے کہ عقل کے گھٹنوں اور اپنے ہی عوام کا خون چوسنے والے شبخونیوں کو خوشامد اور چاپلوسی کے بانس پہ چڑھا امریکہ اپنی مطلب براری کرتا ہے۔
کچھ ایسا ذاتی استقبال کیمپ ڈیود میں جو شاہان امریکہ کی تفریح گاہ بھی ہے وہاں انورالسادات کا کیا گیا اور وہ مصر کو بیچ گیا۔ وہیں ننگ ملت ننگ قوم ننگ وطن مشرف کو آو بھگت کی گئی تو اس نے پورا پاکستان امریکیوں کے ہاتھ بیچ دیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
امریکا کا معاملہ دنیا میں ایک ساہوکار کا سا ہے جو اپنے مفاد کے لئیے کسی سے بھی معاملہ کر لیتا ہے۔ اور وقت نکل جانے پہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔اور کاٹھ کے الؤ حسنی مبارک، مشرف وغیرہ کے غبارے میں اسقدر ہوا بھر دیتا ہے ۔ کہ ایوب کے انھی ایام میں انور مسعود نے اپنی ایک مزاحیہ نظم “اج کیہہ پکائیے” میں طنزیہ کہا تھا کہ ہمیں حبشیوں سے کیا لینا دینا “ساڈیاں تے نیں امریکہ نال یاریاں” یعنی امریکہ سے یاری کے نقصانات کو انور مسعود جیسے دانشور اور پاکستان میں اہل فہم نے تبھی جان لیا تھا کہ امریکہ ہمیں اس یاری کی سان پہ چڑھا کر ہم سے مطلب براری کر رہا ہے۔اور مطلب نکل جانے کے بعد ہماری درگت بنائی جائے گی۔
یہ غالبا پاکستان کی ننھی سی تاریخ میں تیسری بار ہے جب امریکہ ہم سے کسی بے وفا صنم کی طرح انکھیں موڑ رہا ہے۔ اس دفعہ طالبان اور افغانستان جنگ میں پاکستان کو اپنا گن میں بناتے ہوئے ہر دوسرا امریکی ایلچی پاکستان کے دورے پہ آتے ہوئے یہ کہتے نہیں تھکتا تھا کہ “اب کی دفعہ امریکہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ نیز پاکستان سے تعلقات دیرپا بنیادوں پہ قائم کئیے جائینگے۔ ابھی ان بیانوں کی روشنائی بھی اچھی طرح خشک نہیں ہوئی ۔ اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی پالیسی اپناتے ہی امریکہ نے پاکستان سے حسب دستور آنکھیں بدل لی ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان پہ کسی مبینہ یا ممکنہ حملہ روکوانے کے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے امریکہ نے خود ہی پاکستان پہ حملہ کر کے ہمیشہ کی طرح اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔
کہاں تو پاکستان میں ایک ڈاک بنگلے کے چوکیدار کے ناحق مارے جانے پہ امریکہ سے فورا ایک مذمتی بیان جاری ہوجاتا تھا اور بعض اوقات تو امریکہ صد اوبامہ بہ نفس نفیس پاکستان کی حمایت اور دہشت گردی کی وارداتوں کو لائیو یعنی براہ راست مذمت کرتے تھے ۔ اور کہاں جب کراچی میں پاکستان کے نیول بیس پہ حملہ ہوا اور پوری قوم نے ساری رات آنکھوں میں جاگ کر کاٹی گھنٹے دن میں بدل گئے مگر پاکستان کے نام نہاد اتحادیوں کی طرف سے اور خاصکر امریکہ کے طرف سے غالبا کامل چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد جب پاکستانی فوجی دستے اپنی مشکلات پہ قابو پا کر دہشت گردی کی اس ننگی واردات پہ قابو پا چکے تھے اور بیس سے ممکن بچ جانے اور چھپے ہوئے دہشت گردوں کے بارے وسیع و عریض رقبے پہ سرچ آپریشن مکمل ہوئے بھی گھنٹے گزر چکے تھے اور سوڑتھال مکمل قابو میں آجانے کے بعد امریکہ کے ایک جونئیر اہلکار نے اور بعد ازا خارجہ سیکرٹری ہیلری کلنٹن نے مذمت کے دو لفظ کہے۔ جبکہ امریکہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان کے طول عرض دہشت گردی کی بھڑکتی آگ پاکستانی حکمرانوں کی بے وقوفی اور امریکہ کے نمک کو حلال کرنے کی وجہ سے بھڑک رہی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے نہ خودکش دہماکے تھے اور نہ تھانوں اور کچہریوں، مساجد اور چھاونیوں پہ حملے تھے۔
ہماری حماقتوں، بے وقوفیوں کی انتہاء اور طرف تماشہ یہ ہے کہ وہی امریکہ جس کی وجہ سے پاکستان آگ اور خون کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اسکا صدر اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار ملک جیسے پاکستان پہ واشگاف الفاظ میں نئے حملوں کا اعلان کر رہا ہے۔ اور پاکستانی بودے حکمرانوں کی امریکہ کی دوستی اور اندھی تقلید میں آج پاکستان جل رہا ہے اور امریکہ صدر اسی تھانوں کچہریوں پہ ہونے والے دہماکوں کو جواز بناتے ہوئے ہمیشہ کی طرح مطلب نکل جانے کے بعد پاکستان سے منہ موڑنے کی امریکی پالیسی اپناتے ہوئے انھی دہماکوں کو جو حکمرانوں کی حماقتوں اور امریکی جنگ کی وجہ سے پاکستان کا مقدر بنے ہیں انھیں جواز بنا کر دہمکی آمیز نصحیت کی ہے کہ پاکستان والوں کو انھیں روکنا ہوگا۔ نیز جس بھارت کا ہوا کھڑا کر کے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کا ہاتھ تھاما تھا اسی بھارت کے بارے پاکستان کے حفاظتی خدشات کو نہ صرف پس پشت ڈالتے ہوئے بلکہ پاکستان کے اپنی سلامتی کے متعلق جائز خدشات کو سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کا سبق دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان تجارت کے لئیے اپنے دروازے کھولے ۔ یعنی بھارت کو پاکستان میں تجارت کرنے کا موقع دے ورنہ پاکستان کہ پاس کیا ہے جو پاکستان بھارت کو بیچے گا؟ یعنی کمال اغماض برتتے ہوئے یہاں بھی بھارتی مفادات کی وکالت کی ہے۔ امریکہ کا پاکستان پہ اگلا دباؤ بھارت کی افغانستان سے تجارت کے لئیے نہ صرف پاکستان کی تجارتی گزرگاہیں مہیاء کرنا اور بلکہ اپنے اسٹرائجک پارٹنر بھارت کو خوش کرنے کے لئیے پاکستان کی منڈیاں بھارتی مال کے لئیے کھولنے کا حکم نامہ بھی ہوگا۔ اور امریکی صدر نے اپنے اتنے لمبے چوڑے انٹرویو اور بیان میں مسئلہ کشمیر پہ ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ جبکہ پاکستانی وزیر اعظم کا اگلے دن کراچی پہنچنے پہ پہلا بیان یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کو جاری رکھا جائے گا۔
یہ طوطا چشمی محض اسلئیے کہ کہ امریکہ مہاراج افغانستان سے کوچ کرنے کو تیار کھڑے ہیں۔ پاکستانی حمکرانوں کی نا عاقبت اندیشیوں کی وجہ سے جو امریکہ کی طرف محض ضرورت سے زیادہ ایک اچھے استقبال ۔ عشائیے اور پالش کے ساتھ پاکستانی وسائل کی حکمرانوں کی طرف سے بندربانٹ پہ آنکھیں بند رکھے جانے کی وجہ سے شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ثابت ہوتے ہیں۔جبکہ پاکستان اس دوران لہو لہو اور اندھیروں میں ڈوب گیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے ۔ جو لوگ دنیا میں حکومتی کاروبار کے بارے سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں حکومتی کاروبار میں ایک گلاس کے ٹوٹنے سے لیکر کسی شاہ حکومت کی بیماری پہ دعائے صحت تک کو ایک دستاویزی شکل میں محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ بلکہ قرون وسطٰی کے بادشاہوں کے زبانی حکم کو بھی ساتھ ساتھ تحریری شکل دینے کے لئیے کاتبوں کا ایک دفتر ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔ خود امریکہ کی جنگ آزادی میں مصور اور کاتب میدان جنگ کے مناظر کو اور عین جنگ کے دوران ایمرجنسی میں دئیے گئے احکامات کو تحریری شکل دے کر محفوظ کر لیتے تھے۔ اور آج دنیا بھر میں کسی بھی وزارت کے اہلکار اپنے محکمے کے سربراہ کے احکامات کو عملی شکل نہیں دیتے جب تک ان کے پاس تحریری احکامات نہیں پہنچ جاتے۔ جبکہ طرف تماشہ یہ ہے کہ پاکستان میں جونئیر امریکی اہلکاروں کے زبانی کلامی حکم پہ پاکستانی اینجینسیوں نے اپنے ہی شہری دہشت گردی کے الزام میں پھڑکا دینے میں کوئی حرج نہیں جانا اور آج جب ایبٹ آباد میں امریکہ نے دوستی کی آر میں پاکستانی سرحدوں کے تقدس کے پرخچے اڑاتے ہوئے پاکستان پہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان پہ “نتھنگ” کا الزام لگا کر حسب دستور ڈو مور کا نادر شاہی حکم جاری کیا ہے تو پاکستانی اداروں کو دنیا پہ یہ ثابت کرنے کے لئیے مشکل ہورہا ہے کہ کب اور کہاں کس کس شخص کو القاعدہ اور طالبان کا حمایتی ہونے کے الزام میں کس کس امریکی کے حکم پہ پھڑکایا گیا یا گرفتار کیا گیا اور بہ مجموعی پاکستان نے دنیا بھر کے سبھی ملکوں بشمول امریکہ القاعدہ کے زیادہ رکن پکڑے یا مارے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکہ سے جوش عقیدت میں یہ ادارے کسی امریکی سے ایسے حکم سے پہلے یا بعد میں کسی دستاویز پہ دستخط لینے کو بے ادبی خیال کرتے رہے۔
آخر کچھ تو ہے جو پاکستان ایک ہی دائرے میں سفر کر رہا ہے۔ایوب خان نامی ڈکٹیٹر کے جس اسقبال کو “تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، ہمیں یاد ہے سب زرا زرا” کہہ ہم پاکستانی یاد ماضی پہ حیرت ذدہ ہوتے ہیں اس پورے استقبال میں پاکستانی کلچر ثقافت ، یا اسوقت تک دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہونے کے ناطے پاکستانی سربراہ حکومت ایوب خان سے کسی طرف سے پاکستانی ثقافت یا اسلامی ہونے کا شائبہ تک نہیں ملتا البتہ وہ کسی امریکی ریاست کے سربراہ اور گورنر زیادہ نظر اتے ہیں۔ جس میں دانس پارٹی۔ صحت کے جام اور خدا جانے کون کون سی لغویات جن کا ایک مسلمان اور مسلمان ریاست کے حکمران ہونے کے ناطے تصور تک نہیں ہونا چاہئیے۔ آج اگر پاکستان لہو لہان ہے تو اسکی بنیاد باوجود آپکے اختلاف رائے کے اس پاکستان کی لہو لہو تاریخ کی بنیاد یوب سے ھی پہلے لیاقت علی خان نے اسطرح کے استقبالیہ دوروں پہ رکھ دی تھی۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آخر کچھ تو ہے کہ ایک جونئر لیول کے امریکی اہلکاروں تک کے جنگی نوعیت کے احکامات جن میں مارے جانے والے اور مارنے والے بھی پاکستانی تھے۔کے بارے دستاویزی ریکارڈ تک رکھنے کی زحمت تک نہیں کی گئی ۔ یہ سب مشرف کو کیمپ ڈیود نامی تفریح گاہ میں استقبال اور ناشتے کا خمیازہ ہے ہے جس پہ جنرل موصوف نے پھول کر کپا ہوتے ہئے کہ کمیپ ڈیوڈ میں انھیں مدعو کرنے کا اعزاز بخشا گیا ہے پاکستان کی سالمیت پہ امرکہ کے اختیار کو تسلیم کر لیا تھا۔
ہمارا کوئی دوست نہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ امریکہ برطانیہ یوروپ بھارت چین سعودی عرب دنیا کا کوئی ملک ہمارا دوست نہیں۔ اور سبھی ہمارے دوست ہیں۔ بس اس دوستی کے پاردے میں ان ملکوں یا قوموں کے کون کون سے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اج کی دنیا میں یہ بنیادی نکتہ ہمارے بادشاہوں ۔ سیاستدانوں ، جرنیلوں، اور افسر شاہی کو سمجھ نہیں آیا اور اگر آیا ہے تو انھوں نے اغماض برتا ہے تو ہر دو صورتوں میں ہمارے بادشاہ ، سیاستدان، جرنیل، اور افسر شاہی نااہل ہے۔
پاکستان اپنے پاؤں پہ وزن ڈالے۔ اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ پاکستان خود امریکہ ہوگا۔ اور ساری دنیا آپکی دوستی پہ فخر کرے گی۔ ورنہ جس جگہ ہم آج کھڑے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو کوئی وقت جاتا ہے پاکستان پہ فوجی، اقتصادی اور دیگر پابندیوں کا کھیل شروع ہونے کو ہے۔ عالمی تنہائی پھر سے اس وقت تک پاکستان کا مقدر ہوگی جب پھر سے خطے میں امریکی مفادات کے تکمیل کی کوئی نئی مہم شروع نہیں ہوتی، اور تب تک ہم معکوس دائرے کا سفر کرتے کئی دہائیاں پیچھے جاچکے ہونگے۔ آج بجلی نہ ہونے پہ قوم سراپا احتجاج ہے تب پانی کی بوند بوند کے لئیے خدا نخواستہ دربدر ہونگے۔ امریکہ افغانستان سے جاتے ہوئے خطے میں نئے صف بندیاں اور نئے اتحادی قائم کر رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان میں کرزئی کی طرح کی امریکہ کے زیر اثر حکومت اور فوجی ادارے دوسری طرف بھارت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ امریکہ اور پوری اقوام متحدہ۔ نئی صف بندیاں ہوچکیں۔ جس طرح گھنٹے کا سفر طے کرنے والی گھڑی کی سوئی بظاہر چلتی نظر نہیں آتی مگر ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اگلے نشان پہ جاچکی ہوتی ہے وقت دبے پاؤں آگے گزر جاتا ہے۔پاکستان کے پاس اسقدر ڈیموں کی گنجائش ہونے کے باوجود جس طرح آج سے دس پندرہ سال پہلے پاکستان میں بجلی کا سطرح کا بحران کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح آج پاکستان میں پانی کا بحران کا تصور محال نظر آتا ہے۔ نئی صف بندیاں و منصوبہ بندیاں ہوچکیں۔ ہمارے عوام اور حکمران آنکھیں کھولیں۔ اور امریکی تقدس کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور جو حکمران یا سیاستدان اس راہ میں حائل ہوں انھیں رد کر دیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

افتاد طبع میں عقلی گھوڑے

محمد علی مکی نے کسی بات کو چھپایا نہیں۔ بلکہ جو سوچا وہ کہہ ڈالا۔ اور ایسے لوگ اپنی عقل کے آخری گھوڑے کو دوڑانے کے بعد باآخر وہیں پہ رکتے ہیں جہاں سے خدا کو کھوجنے کا آغاز کرتے ہیں مگر اس بار وہ خدا پہ اور جس مذھب سے انکا تعلق ہو اس پہ نہائت شدت سے ایمان لے آتے ہیں۔
یا پھر ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں بدستور عمر کا ایک حصہ اسی نفسیاتی ایپچ میں کاٹ کر آخری عمر میں سورۃ الفاتحہ مکمل سیکھنے کے کے لئیے کسی مولوی کامل عالم سے رجوع کرتے ہیں۔
ہر دو صورتوں میں جب اسطرح کوئی اپنا آپ ننگا کر دے یعنی وہ ہر اس حد سے گزر جائے جس سے پار ہونے کے تصور سے ہی ایک مسلمان کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں تو سوچ لیں کہ انہوں نے اپنے لئیے جو رستہ منتخب کیا یے وہ عقل کل کی بنیاد پہ ایسا رستہ چننے والا پہلا انسان نہیں۔
تاریخ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے عقل کل کو ایمان کا معیار سمجھا اور گمراہی کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ مگر ایمان والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ کیونکہ ایمان بغیر دلیل کے ہوتا ہے اور عقل سے دلیل ماننے والے اپنے زعم میں اپنے آپ غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔
قرآن کریم سے ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرتا ہے۔ جس کا جتنا ظرف زیادہ ہے وہ اتنا ہی اس سے استفادہ کر لیتا ہے اور جو کم ظرف ہیں۔ وہ اس پہ ایں آں دیگر است سے ہچر مچر اور افلاظونیاں بگھارتے ہوئے خالی دامن رہ جاتے ہیں۔
قرآن کریم نہ تو تاریخی کتاب ہے اور نہ ہی اس میں سائنسی یا عقلی فامولے، استعملات اور سائنسی اسرار ر رموز کی کتاب ہے۔ یہ کلام اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کل عالم انسانیت کی فلاح کے لئیے نازل کیا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ ہدایت کے زمرے میں ان قوموں کا بھی زکر کرتی ہے جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نابود ہوگئیں تانکہ ہم مسلمان عبرت پکڑیں اور ان جیسے اعمال اپنانے سے باز رہیں۔ اب اس بات کو کوئی تاریخی حوالے منتے ہوئے اسے جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی عقل ناقس کا قصور ہے کیونکہ قرآن کریم اگر تاریخی کتاب ہوتی یعنی صرف علم تاریخ کی کتاب ہوتی اور خدا نخواستہ یہ کلام اللہ نہ ہوتا اور کسی انسان یا ادارے نے چھاپی ہوتی تو اسمیں علم تاریخ کے سبھی تقاضوں کے عیں مطابق تاریخ پہ بات چیت ہوتی اور اسمیں یہی معاملہ سائنس و حکمت کے ساتھ ہے۔ جس کے حوالے بھی مسلمانوں کو انکی بھلائی کے لئیے دیے گیئے ہیں ۔ اسلئیے قرآن کریم کو سائینس سے یا سائنس سے قرآن کریم سے سائنس کو ثابت کرنا میری رائے میں درست نہیں اور اس سے اجتناب برتنا چاہئیے اور جو لوگ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے یوں کرنے پہ مصر ہیں یا تو وہ گمراہ ہیں یا پھر وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص ایجنڈے پہ کام کر رہیں۔
محمد علی مکی ایمان اسلام کو پاتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا مگر کم از کم اس شخص نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی ذاتی عقل کو ہی ہر شئے کا معیار و پیمانہ سمجھتا ہے خواہ وہ اس سے گمراہی کے اندھیروں میں ہی کیوں نہ گم ہوجائے۔ اسلئیے ایسا شخص کسی کے ایمان اور دین کے لئیے خطرہ نہیں ہوتا بلکہ صاحب ایمان و اسلام اس کی حالت پہ ترس کھاتے ہیں اور راہ ہدایت کی دعا مانگتے ہیں۔ اور انشاء اللہ وہ ایمان اسلام پہ نہ صرف یقن لائے گا بلکہ کوئی عجب نہیں اسلام کا داعی ہو۔
مگر جو عبداللہ بن ابی بریگیڈ کے گندے انڈے جو ہر سو ہر جگہ منافقت کا گند پھیلائے ہوئے ہیں۔ جو منہ مومناں اور کرتوت کافراں ہیں۔ انکا محاسبہ پاکستان ، میڈیا، اور انٹرنیٹ وغیرہ پہ ہوتے رہنا ضروری ہے کہ یہ مکاری اور چاپلوسی سے اپنی منافقت کو جسے یہ اپنی روائتی بزدلی کی وجہ سے اعلانیہ کہنے سے ڈرتے ہیں اسے عام اور کم علم افراد کو قسم قسم کی ہمدردیوں کے جھانسے میں پھیلاتے ہیں۔
اسلئیے کافر سے ذیادہ منافق کو بدتر اور زیادہ قابل سزا قرار دیا گیا ہے کہ کافر جو سمجھتا سوچتا ہے وہ برملا کہتا ہے جبکہ منافقین درپردہ مسلمانوں سے غداری کرتے ہیں۔
جہاں تک حضرت نوح علیۃ والسلام کی عمر ساڑھے نو سال کے بارے یہ عقل کے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں تو ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہاتھی کی عمر دوسو سال اور کچھوؤن کی عمر تین سو سال آج کے دور میں بھی ہوتی ہے تو یہ نشانی ہے ۔ ثبوت ہے کہ جسطرح خیال کیا جاتا ہے کسی دور میں اس دنیا میں عظیم الجثہ ڈائنو سار پائے جاتے تھے اور انکی عمریں بہت لمبی تھیں تو کیا کسی کو شک ہے کہ حضرت نوح علیۃ والسلام کا دور اور طوفان اس سے بھی قدیم ہو گزرا ہو اور تبے انسانوں کی عمریں بھی طویل ہوتی ہوں۔ یا تب سورج کے گرد زمین کے چکر کا جسے ہم سال مانتے ہیں وہ دورانیہ مختصر وقت کا ہوتا ہو ۔ یا کیا عجب کہ سورج بتدریج گرم ہوا ہو اور سیارے خدا کی حکمت سے دور ہوتے چلے گئے ہوں اور انکا دورانے کا وقت بڑھ گیا ہو۔ اللہ تعالٰی کو ہر بات اور عمل کی قدرت ہے۔ جبکہ سائنس بار بار اپنے ہی تخلیق کردہ نظریات اور قوانین کو متواتر مسترد کرتی رہی ہے اور خدا جانے کیب تک کرتی رہے گی اور یوں عقل انسانی کو کسوٹی ماننے والے گمراہ ہوتے رہے گے۔
کیونکہ جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن کریم علم تاریخ کی کتاب نہیں یہ کلام اللہ ہے اسلئیے اللہ تعالٰی کی شان کو منظور نہیں کہ وہ ہر پیغمبر کے اداوار کو سالوں میں بیان کریں کہ کونسے سن یا دور میں کسی پیغمبر علیۃ والسلام کو بیجھا اللہ کی شان ہے کہ اس نے اپنے کلام کے ذریئے ھدایت کی مد میں محض ضمنا اس میں کچھ دور گنوا دئیے ہیں۔

بینکنگ نظام

بینکنگ نظام
بنک کے لغوی معنی کچھ یوں بنتے ہیں وہ مڈل مین فرد ( آجکل ادراہ) جو مالی وسائل ئعنی رقم تلاش کرے۔ اکھٹا کرے۔ اور اسے سود پہ ادھار دے۔
موجودہ بنکنگ کا نظام یہودیوں کا نظام ہے۔ اور موجودہ‌ صورت میں یہ نظام اسقدر پرانا نہیں جسقدر مکی صاحب نے بابل و نینوا کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر جسے بنیاد بنا کر وہ بینکنگ قرار دے ہیں تو مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ پھر بنکنگ کا نظام انکے بیان کردہ تقریبا چار ہزار سالوں سے بھی قدیم ہے۔ بنکنگ کے وجود کا پتہ قدیم یونان میں بھی ملتا ہے اور دنیا کی دیگر تہزیبوں میں بھی اسکا پتہ چلتا ہے۔تاریخ دان بنکنگ کا ایک سرا حضرت ابراھیم علیۃ والسلام کے دور سے سے بھی آگے جا ملاتے ہیں۔ مگر تب بنکنگ یوں یا اس صورت میں نہیں تھی۔ جیسے‌آجکل ہے۔
ہمبرگ میں تجارتی میلوں کی وجہ سے رقم کی نقل و حرکت اور اسکی محفوظ ادائیگی کے لئیے “حامل رقعہ ھذا کو ادا کی جائے گی” نامی بنکنگ کا نظام تھا جس پہ یہودی اس بندوبست کے مالک تھے اور نہائت معمولی سا اپنا کمیشن لیتے تھے۔
مغرب یا چرچ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں پہ اتحنے والے اخراجات کے لئیے بنک کی طرز پہ رقم اکھٹی کرتا رہا ۔
گیارہ سو چھپن میں جینوا میں مغرب میں رقم کے لین دین پہ باقاعدہ لکھے پڑھے معائدے کئیے گئے ۔چودہ سو چھ میں پہلا بنک ” بنکو دی سن گیگوریو یوروپ میں جینوا اطالیہ میں وجود میں آیا۔ انگریزوں نے شاہ ہنری کے دور میں غالبا سترہ سو کچھ میں یہودیوں سے خطیر رقم لیکر انھیں سودی کاروبار کی اجازت دی۔
یہ تو مختصر ی تاریخ ہے بنکنگ اور جدید بنکنگ کا نظام نوع انسانی کو یہودیوں کی عطا ہے۔ بنک نامی لفظ اطالوی زبان میں اس میز نما کو کہتے ہیں جو جینوا، وینس، پیسا اور فلورینس میں یہودی لوگ سود پہ رقم ادھار کرنے کے لئیے استعمال کرتے تھے۔ یہ شا بلوط کی آبنوسی لکڑی کا مضبوط میز نما ہو تا تھا۔ جس کے ارد گرد دراز ہوتے تھے اور اس پہ سبز رنک کا نمدہ بچھا ہوتا جسکے سامنے کرسی رکھ کر یہودی سودی کاروبار کرتے ۔ اور اسے اطالوی زبان میں “بنکو” کہتے ہیں۔ جس سے موجودہ لفظ “بنک” وجود میں آیا ہے۔
یہ سو فیصد یہودیوں کا وضح کردہ نظام ہے۔ امریکہ سنٹرل ریزور مکلمل یہودی کنٹرول میں ہے۔ اس نظام کے داعی یہودی ہیں۔ اور یہ اسقدر واضح بات ہے کہ اس پہ کسی کو شک نہیں۔

پیر لنڈن والا اور کراچی کی مظلوم عوام

پیر لنڈن والا اور کراچی کی مظلوم عوام
عبداللہ صاحب!

آپ سے کس احمق نے یہ کہہ دیا ہے امریکہ میں ماضی کی اطالوی مافیا کی طرز پہ کراچی میں آپ کی بھونڈی مافیا سے۔ ہمیں محض اس لئیے چڑ ہے کہ ہم پنجاب کے شریف برادران سے ہمدردی رکھتے ہیں۔؟

پیر لنڈن نے ہر اس گروپ، سیاسی پارٹی اور پاکستان میں مشرف جیسے بدترین آمر تک کا ساتھ کیوں دیا ہے جو اقتدار میں ہوا ہے۔؟

کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا ساتھ دینا پیر لنڈن کی مجبوری ہے۔ کیونکہ پاکستان میں صرف وہی مجبور ہوتا ہے جسے امریکہ مجبور رکھتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار میں صرف وہی لوگ ٹہرتے ہیں جنہیں امریکہ چاہتا آیا ہے کہ وہ اقتدار میں رہ کر اسکے مفادات کی نگہداشت کریں۔

اور آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پیر لنڈن کس کے بل بوتے پہ اکڑ دکھاتے پھرتے ہیں۔؟

جی ہاں! آپ صحیح نتیجے پہ پہنچے۔ آپ کے پیر لنڈن امریکہ کے پرانے بالکے ہیں۔ ورنہ ان کی کیا حیثیت تھی کہ اپنی ڈیڑھ اٹی مافیا کے زور پہ کراچی کو سب جیل بنائے رکھتے۔ اہل اردو کو یرغمال بنائے رکھتے۔ اور ایک ریاست کے اندر ریاست بنا کر بوری بند لاشوں کا کاروبار کرتے۔

مگر صاحب اللہ سبحان و تعالٰی جب کسی کی رسی دراز کرتا ہے تو وہ اسے ایک ہی جھٹکے میں واپس کینچھ لیتا ہے اور رسی والے کو دوسراسانس لینے کا موقع بھی نہیں ملتا۔

ایک مرد قلندر نے پیشین گوئی کی ہے۔ کہ وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے۔

جس دن پیر لنڈن کی پشت سے امریکہ کا ھاتھ اٹھ جائے گا اسی دن انہیں پاکستان کے اقتدار میں شرکت سے محروم کر دیا جائے گا۔ موصوف ربع صدی سے۔ کراچی کے شریف عوام سے ۔ اہل اردو ۔ مہاجر اور مہاجروں کی اولاد سے۔ محض اس لئیے بلیدان لیتے آئیں ہیں۔ جن کا نام لے کر وہ سیاست کرنے کا دعواہ کرتے ہیں انھیں ہی رغمال بنا رکھا ہے ، اور مکافات عمل کو ٹالتے ہیں۔ یہ دور ختم ہونے کو ہے۔ اور انہیں پتہ ہے کہ وہ کس کے ھاتھوں کیفر کردار کو پہنچے گے۔ سبب شاید شریف بردران ہی بنیں۔ جس کی ہم آگے وضاحت کریں گے۔ مگر اپنے کیفر کردار کو انھی کے ھاتھوں پہنچے گے جن پہ ربع صدی سے ظلم توڑتے آئے ہیں۔ جن کے پیروں کی لاشیں بوری میں بند ان کے بجھواتے آئے ہیں۔ وہی اپنے پیاروں کے خون کا حاسب برابر کریں گے۔

پچھلی ربع صدی میں پیر لنڈن نے۔ محض اپنی ذات کی خاطر۔اپنی جان بخشی کی خاطر۔ ہر اس پارٹی کا ساتھ دیا۔ جس کا اشارہ امریکہ سے ہوا تاکہ وہ اقتدار میں رہ کر تقدیر کا لکھا ٹال سکیں۔ کبھی ق لیگ۔ کبھی مشرف جیسا پاکستان کی تاریخ کا۔ ننگ ملت۔ بدترین آمر ۔ کبھی پی پی پی اور زارداری کے ساتھ۔ امریکہ کی گودی میں بیٹھ کر پاکستان میں اقتدار اقتدار کھیلنے کے حصے دار رہے ہیں۔

اب شنیدن یہ ہے کہ شریف برادران کی بھی اندرون خانہ امریکہ سے مک مکا ہوچکی ہے۔ اور برادران گود میں حصہ بقدر جثہ نہیں( جو کہ اس حساب سے بھی پیرِ لنڈن کے لئیے سردردی ہی سر دردی ہے) بلکہ شریف برادران اس امریکہ کی یہ بھاگ بھری گودی پوری کی پوری صرف آپنے لئیے سے کسی بھی طور کم پہ راضی نہیں ہوئے اور پیر لنڈن کی بد نصیبی کہ امریکہ اس پہ اتفاق کر چکا ہے۔ بدلے میں یہ برادران امریکہ کو کیا مہیا کریں گے۔ یہ پیر لنڈن کا نہیں پاکستانی عوام کی سردردی ہے۔ مگر پیر لنڈن ایک ربع صدی کے بعد پہلی دفعہ پاکستان کے اقتدار کی شرکت اور امریکہ کی آنکھ کے تارہ بنے رہنے کے منصب سے یک بہ یک محروم ہونے والے ہیں۔

عبداللہ صاحب!
آپ بھی ماشاءاللہ صاحب بصریت معلوم پڑتے ہیں۔ زرا تصور تو کریں کہ جن کے پیارے ان کی بھینٹ چڑھا دیے گئے تو وہ لاکھ اردو اسپیکنگ ہوں مگر سینے میں اپنے پیاروں کی بے بسی کی ناحق موتوں کا دھیمے دھیمے سلگنے والا الاؤ جلائے رکھتے ہیں۔ آپ اپنی بصیت کی آنکھ سے دیکیں جب امریکہ اور اقتدار کا ربع صدی کا سورج غروب ہوگا تو پھر کیا کیا ہوگا۔

آج جو سوات میں گھنا گھن گرج رہے ہیں اور کئیوں کے سر کی قیمت مقرر کر چکے ہے وہ کب کے پتہ نہیں اس مافیا کے کتنے قانون شکنوں کے سروں کی قیمت مقرر کر چکے ہوتے۔ کہ ان میں بھی ہیں دلِ بے تاب بہت۔

اور مرد قلندر کی پشین گوئی یہ ہے۔کہ کراچی کے مظلوم عوام پچھلی ربع صدی کے طلسم کو ایک پھونک میں اڑا دیں گے۔ اس دن فون کال کے ذریعئے لہک لہک کر مرثیے سنانا کام نہیں آئے گا۔

کنویں کا مینڈک

یہ عبداللہ صاحب کی نذر ہے!
ایک چھوٹے اور تنگ سے گہرے کنوئیں میں ایک مینڈک رہتا تھا۔ جو وہیں پیدا ہواتھا۔ اتفاق سے سمندر کا ایک مینڈک کنوئیں کے قریب سے گزرتے ہوئے کنوئیں کی منڈیر سے ٹھوکر کھا کر کنوئیں میں جا گرا۔

کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا ۔۔تم کہاں سے‌آئے ہو۔؟
سمندر سے۔۔ سمندر میں پیدا ہونے والے میں مینڈک نے جواب دیا۔
سمندر کیسا ہوتا ہے ۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے پوچھا۔
بہت بڑا!۔
کتنا بڑا۔؟ کنوئیں کے مینڈک نے چھلانگ لگاتے ہوئے پوچھا اتنا بڑا۔؟
اس سے بھی بڑا۔ سمندر کے مینڈک جواب دیا۔

کنوئیں کے مینڈک نے ایک چھلانگ اور لگائی اور کنوئیں کے دوسرے کنارے تک پہنچ گیا۔ اور پھر سے پوچھا۔
اس کنوئیں سے بھی بڑا۔؟
اس سے ھی بہت بڑا۔ بے شمار بڑا۔ سمندر کے مینڈک نے جواب دیا۔
تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم کذاب ہو۔ اس کنوئیں سے بڑا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کنواں ہی سب سے بڑی شئے ہے ۔

اللہ کی شان ہے۔ کنوئیں کے مینڈک ٹرا ٹرا کر اہل سمندر سے کہتے ہیں۔ ہمارے کنوئیں سے آگے سب جھوٹ ہے۔

ٹہرے نا آخر کنوئیں کے مینڈک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیز۔:
مینڈک والے واقعہ کو ایسے لوگوں کے پس منظر میں پڑھا جائے۔ جنہیں شدید تعصب کے ہاتھوں بھتہ خوروں سے آگے کچھ نظر نہیں‌آتا۔ اور دوسروں کو اخلاقیات اور علم سیاست سکھانے کے درپے ہیں۔ جبکہ انکہ اپنی سیاست ہر قسم کی غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کی ہے۔
نوٹ۔: مندرجہ بالا تبصرہ ۔ میں نے ۔۔ افضل صاحب۔۔ میرا پاکستان۔۔ پہ کسی اور تناظر میں لکھا ہے۔ یہاں نقل کرتے ہوئے فیص کو عام کر رہا ہوں۔ امید کافی ہے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ عبداللہ صاحب کو بھی افاقہ ہوگا۔

امید کی جانی چاھئیے کہ وہ اسے کافی سمجھیں گے۔اور یار لوگوں کی ٹانگ ہر معاملے میں گھسیٹنے سے باز رہیں گے۔ ورنہ نسخے ہمارے پاس بے شمار موجود ہیں۔

حبیب جالب

پاکستان کے پُر آشوب دور کا ایک تاریخی کردار حبیب جالب ہوا ہے ۔ عجب مرد آزار تھا۔پاکستان کے غریبوں کے لئیے جدوجہد کی۔ ساری عمر بمعہ اہل و عیال انتہائی غریبی اور عسرت میں کاٹی۔ بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے نعرے پہ ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ جبر کے قہر کو برداشت کیا۔ تشدد، مار پیٹ، جیل۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بھٹو کو بچے کچھے پاکستان میں حکومت ملی۔ حبیب جالب کے گھر میں فاقوں کے ھاتھوں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ سخت جاڑے کے موسم میں۔گھر کے افراد بعض اوقات ایک ہی لحاف کے نیچے بھوکے سونے پہ مجبور ہوتے۔

ذوالفقار علی بھٹو نےاپنی وڈیرہ فطرت سے مجبور عوامی جمہوریت کا چولہ اتار پھینکاتھا ۔ اندر سے ایک آمر اور فسطائی بھٹو بڑامد ہوا۔ عین اس وقت جب بھٹو کی حکومت میں تانگہ بان بھی وزیر شزیر بنائے جارہے تھے۔ ممکن تھا کہ حبیب جالب بھی کوئی وزارت یا ادارت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔مگر حبیب جالب کو یہ منظور نہ ہوا بھٹو کی مخالفت کی اور سخت مخالفت کی۔ بھٹو نے ہر قسم کی مروت بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مخالفوں پہ داروگیر کے در وا کر دیے۔ جن میں حبیب جالب بھی شامل تھا ۔ غریب اور غیرتمند شاعر نے اپنے اہل خانہ کی عسرت کی پرواہ نہ کی اور جیل کی کال کھوٹڑیوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ بھٹو کا ظالمانہ تفاخر ایک غریب اور مجبور شاعر کو جھکا نہ سکا۔

پاکستان میں چھوٹی سی امیر اقلیت کے ھاتھوں پاکستان کا بہت بڑا اکثریتی طبقہ انتہائی غریب بلکہ بھوک و ننگ کا شکار طبقہ پرانے راجوں کی راجدھانیوں کی پرجا(رعایا) کی مانند سمجھ لیا گیا ہے۔ جس کا کام ہی علی الصبح اپنی بیگار کا آغاز شروع کرنے سے پہلے راجہ اور راجکمار کو ڈنڈوت کرنا۔پُن کے نام پہ انھیں پوجا پاٹ دان کر نا۔راجھدھانی کے مہاشوں کے ظلم کو اپنا فرض سمجھ کر سہنا۔ راجدھانی کے بنئیوں کے گُر ،گنتی کی مار کھا کر اپنی شب و روز کی محنت سے مٹھی بھر آٹا جس سے جسم کا سانس اور آس کا رشتہ بمشکل جڑا رہے۔مگر ۔ ۔ ۔ کب تک؟

حبیب جالب کی شاعری میں سے کچھ شعر بہت مشہور ہوئے۔ جن میں سے دو ذیل میں درج ہیں۔


کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جن کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے ، نہ دن اپنے بدلتے ہیں

 

ذات پات کا نظام

ہندؤستان کے مقامی لوگوں کے مزاج میں ابھی تک یہ بات شامل ہے۔ اور ہم آپ اسکا مظاہرہ پاکستان میں جا بجا دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کے آباء بوریاں سیتے تھے تو انہیں بورے والے  کا نام دے دیا  ۔ جسکا تعلق لاہور یا رنگون سے ہوا انہیں “لاہوریا” یا “رنگون والے” کہہ دیا ۔ خواہ اس وقت ان لوگوں نے ایسے نام رکھے جانے کی اپنی سی مزاحمت کی ۔ بوریاں سینے والے گزر گئے اب انکی نسلیں بھی ایسے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔
عربی میں سید کسی بھی باعزت فرد کو یا کسی کو عزت دینے کے لئیے کہا جاتا ہے۔ “سیدی” “سید” “یا سید” یاسیدی” اسی طرح ” الشیخ” بھی احتراما کہا جاتا ہے۔ جبکہ برصغیر میں انھیں کاسٹ یعنی ذات یا قومیتیں تصور کیا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے طلوع اسلام کے بعد ہندؤستان میں رائج دونوں قومیتوں کے جد امجد وقفے وقفے سے ہندؤستان وارد ہوتے رہے اور انکے آپس میں ایک دوسرے کو سید اور شیخ مخاطب کرنے سے مقامی لوگوں نے انھیں سید اور شیخ قومیت کے طور پہ جانا اور پکارنا شروع کر دیا۔

ہندؤستان میں طلوع اسلام سے صدیوں قبل سے ذات پات اور اچھوت چھات کا معاشرتی نظام چلا آرہا ہے۔ اونچی ذات کے ہندؤوں اور برہمنوں کی اقلیت کے تفاخر کے سامنے شودر اور ویش ذاتوں کی اکثریت کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور بدستور یہ رویہ بھارت میں موجود ہے۔ ہندوستان میں برہمن مذھبی اور روائتی طور پہ برتر قومیت ہے۔ اور برہمن نسلا برہمن ہو تو برہمن کہلوایا جائے گا ورنہ کوئی ہندؤ کتنی بھی تپسیا کر لے۔ کسقدر پوجا پاٹ کرتا رہے وہ کبھی برہمن نہیں بن سکتا۔ اسی طرح عرب سے آنے والے کچھ عربوں نے سید کہلوائے جانے کے بعد برہمنوں کی طرح اپنی قومیت کو ہر قسم کی خونی ملاوٹ سے پاک رکھتے ہوئے اپنے اپ کو مقدس قرار دیا۔ اور سید ہونے کی شرط نسلا رکھ دی۔ اور یہ بھول گئے کہ انکے آباء جہاں سے نقل مکانی  ہجرت کر کے آئے ہیں وہاں سید کو احتراما کہا اور پکارا جاتا ہے اور وہ کسی بھی نسل سے ہوسکتا ہے۔
ہندوستان پہ مسلمانوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے ہندؤستان آنے والے عرب تاجروں اور سپاہیوں میں سے کچھ نے سید کہلائے جانے کو تفاخر کے طور خاندانی اسٹیٹس بنا لیا اور دوسرے غیر سید مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندؤں سے اپنے آپ کو برترسمجھنے لگے ۔ مقامی حاکموں نے انہیں حویلیاں ، جائیدادیں مراعات اور جاگیر داریاں بخشیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ یہ لوگ مسلمان ہونے کے ناطے ہر قسم کی اعلٰی یا کمتر ذات پات کی سختی سے نفی کرتے اور اپنی ذات کو نمونہ بناتے تانکہ برہمن کے ہاتھوں ستائی ہوئیں اور ہندوستان میں بسنے والی شودر ویش قومیں اسلام میں داخل ہوتیں۔

ہندؤستان کے سیدوں یا سادات کے بارے ایک رائے یہ بھی ہے کہ شہید کربلا حسین رضہ اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان کے زندہ بچ جانے والے لٹے پٹے عزیز اور امام زین العابدین اور آل عباس کی اولادوں میں سے کچھ لوگ عراق، شام اور ایران سے ہوتے ہوئے صدیوں تک ہندؤستان آتے رہے۔ اور اسکے علاوہ وہ مبلغین بھی اسی شمار میں آتے ہیں جو ایران وغیرہ سے ہوتے ہوئے بالآخر ہندؤستان پہنچے۔ یہ سیدوں کی ہندؤستان میں آمد کی دوسری بڑی وجہ اور ذریعہ ہے۔ جبکہ ایران عراق اور شام سے آنےوالے سادات نے تبلیغ دین اور اسلام کی ترویج کو کو اپنا اشعار بنایا اور اس مقصد کے لئیے خانقاہیں ،مدرسے ، سماع کی محفلیں اور لنگر جاری کئیے۔ اور وہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان سے مصاحفہ کیا تھا ۔ یعنی ہاتھ ملایا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ عام مسلمان جنہیں یہ ہاتھ چومنے والی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی وہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں کو اس عقیدت سے چوم لیا کرتے کہ ان ہاتھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔ اور یہ عقیدت اور لمس ہاتھ در ہاتھ نسل در نسل ہوتا آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں کسی نہ کسی صورت ہاتھ چومنے کی یہ عقیدت عام ہے۔ جیسے مراکو کے بادشاہ کے بارے عام طور پہ مشہور ہے کہ کہ اسکا شجرہ خاص سادات سے ہے اور اسکے ہاتھ نسل در نسل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصحافے تک جاتے ہیں اوریوں باپ داداسے ہوتا ہوا موجودہ بادشاہ تک پہنچتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مرواکو کے ذیادہ تر لوگ اپنے بادشاہ کے ہاتھ اس عقیدت کے تحت چومتے ہیں۔ جبکہ ہندؤستان میں سادات کے ہاتھ چومنے والے اور اکثر کے ہاتھ چومے جانے والے سادات یہ بنیادی عقیدت مدت ہوئی بھول چکے ہیں۔

بہرحال میری رائے میں محض کسی مخصوص نسل یا قبیلے سے تعلق ہونے کی وجہ کسی سید کا کسی غیر سید پہ فضلیت رکھنا خلاف اسلام ہے اگر خدا کے نزدیک کسی کو کسی دوسرے پہ فضلیت حاصل ہے تو یہ اسکے صالح اعمال اور دوسروں سے روا رکھی گئیں نیکیوں کی وجہ سے ہے ۔ ہاتھ چومنا یا پاؤں چومنا درست نہیں۔ اور کسی بھی وجہ سے ایک انسان سے اسطرح عقیدت رکھنا اور اسکا اظہار کرنا قطعی طور پہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح بے شک مختلف خانقاؤں پہ جاری لنگر گو کہ پاکستان کے غریبوں کو دوقت کی روٹی مہیاء کرتا ہے مگر یہ درست نہیں۔
پاکستان میں سبھی مسالک کو جینے اور اپنے عقیدے کے تحت زندگی گزارنے کی آزدی ہونی چاہئیے ۔ سب مسلمانوں کو ایک دوسرےرکے بارے صبرتحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئیے جو اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایک امتی ہونے کے ناطے یہ سب کا فرض بھی ہے۔

پاکستان میں مزید صوبے

اگر سیاسی مقاصد سے قطع نظر محض انتظامی طور پہ نئے صوبے ، ضلعے یا حلقے بنا دئیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہئیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کے ہر بیان کے پیچھے محض اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔
اسلئے پاکستان کا ہر ایرا غیرا اور نتھو خیرا تقسیم در تقسیم کی بات کرتا ہے کہ اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کا الگ مندر بنا کر اس پہ اپنا ذاتی اقتدار قائم کر سکے۔اور یہ ایک ایسا عمل ہے کہ موجودہ صورتحال پہ اسکے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ کیونکہ جس مک میں غریبی کا عفریت زندہ انسانوں کو نگل رہا ہو وہاں بھٹو کا مقدمہ ری اوپن کرکے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ذریعے سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے وفاق کو بلیک میل کرنا، امتناع قادیانیت، اور توہین رسالت جیسے قوانیین سے بغیر کسی وجہ کے چھیڑ چھاڑ کرنا۔ اعلٰی عدالتوں کے واضح فیصلوں پہ ٹال مٹول سے کام لینا۔ اور دیگر شرراتیں محض اصل مسائل لو جنہیں حل کرنے کے لئیے یہ حکمران اتنے بڑے بڑے مناصب پہ بیٹھے پوری تنخواہ لے رہے ہیں۔اور بندر بانٹ کے ذریعے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں دے رکھا ہے۔ ایسے میں پنجاب کی تقسیم محض اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔جسکے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لئیے نہائت خوفناک ہونگے۔
البتہ پہلے عوام کے جائز مسائل حل کر کے انھیں روزی روٹی تعلیم پانی بجلی گیش چاول آٹا دانہ “روٹی کپڑا مکان ” اور با عزت روزگار مہیاء کرنے کے بعد عوام سے سکون کے ساتھ ریفرنڈم کے ذریعیے رائے لی جاسکتی ہے۔ کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔آیا وہ سندھ ، پنجاب بلوچستان اور پختون خواہ کی مزید تقسیم چاہتے ہیں یا نہیں؟ اس سے پہلے ایسا کرنا اسی شاخ کو کاٹنا ہے جس پہ سب کا بسیرا ہے۔
جہاں تک اصول کی بات ہے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تو سندھ کے مسائل تو فوری نوعیت کے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لئیے سندھ زیریں اور سندھ بالائی دو صوبے بننا ضروری ہیں ۔اور کراچی کو ایک الگ صوبہ بنایا جانا بھی درست ہے تانکہ کراچی میں جاری دہشت گردی جس میں روزانہ درجنوں انسان بھتہ خوروں اور ایک مخصوص لسانی تنظیم کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے مخلوق خدا کو نجات دی جاسکے۔ اسی طرح خیبر پختون خواہ میں ہزاروال صوبہ بھی بننا چاہئیے تاکہ عوام کو انتظامی معاملات نزدیک ہی حل ہونے سے سہولت ہو۔ اور بلوچستان جو رقبے میں اسقدر بڑا ہے اس میں بھی دو یا تین صوبے ہونے چاہئیں۔ تاکہ لوگوں کو اس قدر دور اور دشوار کوئٹہ یاترا سے نجات ملے۔
سیاسی لحاظ سے اسکا فائدہ یہ بھی گا کہ صوبوں سے جڑی عصبیت بھی تقسیم ہو کر ختم ہوجائے گی۔
افغانستان میں ہر ضلع ایک صوبے کا درجہ رکھتا ہے۔ اسپین میں بھی ہر ضلع ایک صوبہ گنا اور سمجھا جاتا ہے۔جس سے انتظامی معاملات جلد اور آسانی سے حل ہوتے ہیں۔
مگر اس کے لئیے پاکستان کے بکاؤ مال سیستدانوں کی خود غرضی اور بغض معاویہ کو اصول نہیں مانا جانا چاہئیے بلکہ اسے صرف اور صرف مخلوق خدا کے فائدے کے حوالے سے محض انتظامی سہولت کے طور پہ کیا جانا ضروری ہے۔
اسلئیے سندھ کی تقسیم بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوگی جتنی پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی۔ مگر اس کے لئیے پاکستان کے عوام کی‌خواہش کو پیمانہ مانا جانا ضروری ہے۔

تعارفِ بلاگ

جیسا کہ آپ سب ساتھی جانتے ہیں کہ جاوید گوندل بھای جو بارسیلونا سپین سے تعلق رکھتے ہیں، کہ تبصرے بہت مفید اور جامع ہوتے ہیں۔ کوی بھی موضوع ہو جاوید بھای کے الفاظ نہ صرف علمی حثیت رکھتے ہیں بلکہ پڑھنے والوں کے لیے یقیناً نصائح سے کم نہیں۔ کافی عرصے سے بہت سے ساتھیوں کی خواہش تھی کہ جاوید بھای کا کوی بلاگ ہو، لیکن اپنی مصروفیات کے باعث جاوید بھای نے بلاگ بنانے سے معذرت کر لی۔ کچھ ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ جاوید بھای کے نام سے ایک بلاگ بنا لیا جاے جہاں انکے تبصروں کو جمع کر دیا جاے۔ بلاگ بنانے سے پہلے جاوید بھای سے اجازت ضروری تھی چناچہ یہ کام ہمارے یاسر جاپانی بھای نے سرانجام دیا  تکنیکی کام وقار اعظم بھای نے جسکے لیے ہم سب انکے دلی طور پر مشکور ہیں۔ چناچہ اسی کاوش کے تحت یہ بلاگ آپکے سامنے ہے اور اسکے تمام جملہ حقوق جاوید گوندل بھای کے نام ہیں۔چونکہ جاوید بھای ایک مصروف شخصیت ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک بلاگ بنانے سے معذرت کی تھی اسی لیے بلاگ کی اجازت لیتے وقت یہ شرط رکھی گئی تھی کہ بلاگ پر کیے جانے والے تبصروں پر کسی بھی قسم کا جواب دینے کی ضرورت جاوید بھای کو نہ ہو گی۔ جاوید بھای کی ویب سائٹ کا نام بھی اجنبی ہے اور انکا ای میل ایڈرس بھی اجنبی ہوپ ہے اسی مناسبت سے بلاگ کا نام بھی اجنبی اُمید رکھا گیا ہے ۔اس بلاگ میں جاوید بھای کے تبصرے نہ صرف جمع کیے جائیں گے بلکہ انکو موضوع کی مناسبت سے عنوان بھی دیا جاے گا۔ ہو سکتا ہے ضرورت کے تحت تبصروں کو معمولی سا تبدیل بھی کیا جائے ، چناچہ جن تبصروں میں تبدیلیاں کی جائیں گی انکو چھاپنے سے پہلے جاوید بھای کو ضرور دکھلا دیا جاے گا۔ ہماری کوشش یہ ہو گی کہ جو تبصرے ہم یہاں پر شائع کریں انکا حوالہ (یعنی جہاں وہ پوسٹے گئے تھے) بھی ضرور دیں۔ اس کاوش میں آپ بھی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں، اگر جاوید بھای کا کوی تبصرہ کہیں بھی آپکو نظر آے اور اس سائٹ پر نہ ملے  آپ ہمیں اسکا لنک مندرجہ زیل ای میل ایڈریس پر بھیج سکتے ہیں۔
Ajnabi.hope786@gmail.com
 ۲۶ اپریل ۲۰۱۱